خود اپنے آپ سے ہم بے خبر سے گزرے ہیں
خود اپنے آپ سے ہم بے خبر سے گزرے ہیں
خبر کہاں کہ تری رہ گزر سے گزرے ہیں
نفس نفس ہے معطر نظر نظر شاداب
کہ جیسے آج وہ خواب سحر سے گزرے ہیں
نہ پوچھ کتنے گل و نسترن کا روپ لئے
بہار نو کے تقاضے نظر سے گزرے ہیں
بہار خلد بہ ہر گام ساتھ ساتھ رہی
ترے خیال میں کھوئے جدھر سے گزرے ہیں
اماں ملی بھی جو ان کو تو تیرے دامن میں
وہ کارواں جو مری چشم تر سے گزرے ہیں
دلوں پہ چھوڑ گئے نقش اپنی یادوں کا
تمہارے درد کے مارے جدھر سے گزرے ہیں
حسیں ہو تم کہ تمہاری کوئی مثال نہیں
حسین یوں تو ہزاروں نظر سے گزرے ہیں
حمیدؔ پوچھ نہ آشوب دہر کا عالم
ہزار فتنۂ محشر نظر سے گزرے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.