خود مجھ کو میرے دست کماں گیر سے ملا
خود مجھ کو میرے دست کماں گیر سے ملا
جو زخم بھی ملا ہے اسی تیر سے ملا
تجھ کو خبر بھی ہے مرے انکار کا جواب
تیغ و سنان و خنجر و شمشیر سے ملا
گم ہو گیا تھا میں اسی دشت وجود میں
میں اپنے اسم ذات کی تسخیر سے ملا
اے رمز آگہی میں تجھے خود پہ وا کروں
وحشت کو میرے پاؤں کی زنجیر سے ملا
ملنے کی کچھ خوشی نہ بچھڑنے کا خوف ہے
اے میری جان تو بڑی تاخیر سے ملا
دریا تمام تشنہ لبوں کی ہے ملکیت
اس مملکت کو پیاس کی جاگیر سے ملا
جو خواب میری چشم ضرورت نے کھو دیا
وہ خواب میرے خواب کی تعبیر سے ملا
شاہدؔ مرے مزاج کی آشفتگی نہ دیکھ
میری اداسیوں کا نسب میرؔ سے ملا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.