خدا کے واسطے چہرے سے ٹک نقاب اٹھا
خدا کے واسطے چہرے سے ٹک نقاب اٹھا
یہ درمیان سے اب پردۂ حجاب اٹھا
یہ کون بادہ پرستی ہے اے بت بد مست
اٹھا جو بزم سے تیری سو ہو کباب اٹھا
مطالعے سے ترے بیت ابروؤں کے شوخ
رکھی ہے شیخ نے اب طاق پر کتاب اٹھا
بسان نقش قدم جس نے پا تراب کیا
وہ راہ عشق میں مٹ کر غرض شتاب اٹھا
بہ چشم تر ہی کوئی دم تو بیٹھ ورنہ عبث
تو ایک دم کے لیے بحر سے حباب اٹھا
پیا ہے شیشۂ گردوں سے جس نے اک جرعہ
مثال جام وہ با دیدۂ پر آب اٹھا
نصیرؔ شور نہ کر فتنہ ہووے گا برپا
خدا نخواستہ اب گر وہ مست خواب اٹھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.