خوشی ملی تو یہ عالم تھا بدحواسی کا
خوشی ملی تو یہ عالم تھا بدحواسی کا
کہ دھیان ہی نہ رہا غم کی بے لباسی کا
چمک اٹھے ہیں جو دل کے کلس یہاں سے ابھی
گزر ہوا ہے خیالوں کی دیو داسی کا
گزر نہ جا یوں ہی رخ پھیر کر سلام تو لے
ہمیں تو دیر سے دعوی ہے روشناسی کا
خدا کو مان کہ تجھ لب کے چومنے کے سوا
کوئی علاج نہیں آج کی اداسی کا
گرے پڑے ہوئے پتوں میں شہر ڈھونڈتا ہے
عجیب طور ہے اس جنگلوں کے باسی کا
- کتاب : غزل کا شور (Pg. 23)
- Author : ظفر اقبال
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2023)
- اشاعت : 2nd
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.