خواب جیسی ہی کوئی اپنی کہانی ہوتی
خواب جیسی ہی کوئی اپنی کہانی ہوتی
یوں تو برباد نہ یہ اپنی جوانی ہوتی
تیرے آنے سے چہک اٹھتا یہ ویرانۂ دل
پھر سے آباد وہی روش پرانی ہوتی
رابطہ رکھا نہ دیا جائے سکونت کا پتہ
اس طرح بھی ہے کوئی نقل مکانی ہوتی
اب مرے پاس نہیں کوئی بھی رونے کا جواز
ہجر موسم کی سہی اشک فشانی ہوتی
یاد کرنے کا تجھے کوئی بہانہ بھی نہیں
کوئی چھلا کوئی چوڑی ہی نشانی ہوتی
اب ترے ہجر سے مانوس طبیعت ہے مری
پہلے والی سی نہیں جاں پہ گرانی ہوتی
نخل جاں پہ جو برستا تیرا بادل مریمؔ
کچھ تو کم بدن کی یہ تشنہ دہانی ہوتی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.