کسی گرداب کی پھینکی پڑی ہے
کسی گرداب کی پھینکی پڑی ہے
لب ساحل جو اک کشتی پڑی ہے
حقیقت میں وہی سیدھی پڑی ہے
مجھے اک چال جو الٹی پڑی ہے
سفر الجھا دئے ہیں اس نے سارے
مرے پیروں میں جو تیزی پڑی ہے
وہ ہنگامہ گزر جاتا ادھر سے
مگر رستے میں خاموشی پڑی ہے
مرے کانوں کی زد پر ہیں مناظر
مری آنکھوں میں سرگوشی پڑی ہے
ہوا ہے قتل بے داری کا جب سے
یہ بستی رات دن سوئی پڑی ہے
یہ مصرعہ میں ادھورا چھوڑتا ہوں
مرے بستے میں اک تختی پڑی ہے
پتنگ کٹنے کا باعث اور ہے کچھ
اگرچہ ڈور بھی الجھی پڑی ہے
ذرا کوئل کا پنجرہ کھل گیا تھا
ابھی تک خوف سے سہمی پڑی ہے
مکمل ایک دنیا اور بھی ہے
جو اک دنیا کی ان دیکھی پڑی ہے
بڑی بنجر تھی یہ کھیتی لیاقتؔ
مگر کچھ روز سے سینچی پڑی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.