کسی کے ہاتھ کہاں یہ خزانہ آتا ہے
کسی کے ہاتھ کہاں یہ خزانہ آتا ہے
مرے عزیز کو ہر اک بہانہ آتا ہے
ذرا سا مل کے دکھاؤ کہ ایسے ملتے ہیں
بہت پتا ہے تمہیں چھوڑ جانا آتا ہے
ستارے دیکھ کے جلتے ہیں آنکھیں ملتے ہیں
اک آدمی لئے شمع فسانہ آتا ہے
ابھی جزیرے پہ ہم تم نئے نئے تو ہیں دوست
ڈرو نہیں مجھے سب کچھ بنانا آتا ہے
یہاں چراغ سے آگے چراغ جلتا نہیں
فقط گھرانے کے پیچھے گھرانا آتا ہے
یہ بات چلتی ہے سینہ بہ سینہ چلتی ہے
وہ ساتھ آتا ہے شانہ بہ شانہ آتا ہے
گلاب سنیما سے پہلے چاند باغ کے بعد
اتر پڑوں گا جہاں کارخانہ آتا ہے
یہ کہہ کے اس نے سمسٹر بریک کر ڈالا
سنا تھا آپ کو لکھنا لکھانا آتا ہے
زمانے ہو گئے دریا تو کہہ گیا تھا مجھے
بس ایک موج کو کر کے روانہ آتا ہے
چھلک نہ جائے مرا رنج میری آنکھوں سے
تمہیں تو اپنی خوشی کو چھپانا آنا ہے
وہ روز بھر کے خلائی جہاز اڑاتے پھریں
ہمیں بھی رج کے تمسخر اڑانا آتا ہے
پچاس میل ہے خشکی سے بحریہ ٹاؤن
بس ایک گھنٹے میں اچھا زمانہ آتا ہے
بریک ڈانس سکھایا ہے ناؤ نے دل کو
ہوا کا گیت سمندر کو گانا آتا ہے
مجھے ڈیفینس کی لنگوا فرانکا نئیں آتی
تمہیں تو صدر کا قومی ترانہ آتا ہے
مجھے تو خیر زمیں کی زباں نہیں آتی
تمہیں مریخ کا قومی ترانہ آتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.