کوئی محبوب ستم گر بھی تو ہو سکتا ہے
کوئی محبوب ستم گر بھی تو ہو سکتا ہے
پھول کے ہاتھ میں خنجر بھی تو ہو سکتا ہے
ایک مدت سے جسے لوگ خدا کہتے ہیں
چھو کے دیکھو کہ وہ پتھر بھی تو ہو سکتا ہے
مجھ کو آوارگئ عشق کا الزام نہ دو
کوئی اس شہر میں بے گھر بھی تو ہو سکتا ہے
کیسے ممکن کہ اسے جاں کے برابر سمجھوں
وہ مری جان سے بڑھ کر بھی تو ہو سکتا ہے
صرف ساون تو نہیں آگ لگانے والا
جون کی طرح دسمبر بھی تو ہو سکتا ہے
چاک دامن سے مرے مجھ کو برا مت سمجھو
کوئی یوسف سا پیمبر بھی تو ہو سکتا ہے
صرف چہروں پہ لطافت کوئی موقوف نہیں
چاند جیسا کوئی پتھر بھی تو ہو سکتا ہے
تم سر راہ ملے تھے تو کبھی پھر سے ملو
حادثہ شہر میں اکثر بھی تو ہو سکتا ہے
سارا الزام جفا اس پہ کہاں تک رکھوں
یہ مرا اپنا مقدر بھی تو ہو سکتا ہے
کیا ضروری ہے کہ ہم سر کو جھکائیں زخمیؔ
ایک سجدہ مرے اندر بھی تو ہو سکتا ہے
- کتاب : Lahja bolta hai (Pg. 150)
- Author : Siraj Alam Zakhmi
- مطبع : Gulistan-e-adab (2015)
- اشاعت : 2015
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.