کوئی سمجھاؤ دریا کی روانی کاٹتی ہے
کوئی سمجھاؤ دریا کی روانی کاٹتی ہے
کہ میرے سانس کو تشنہ دہانی کاٹتی ہے
میں باہر تو بہت اچھا ہوں پر اندر ہی اندر
مجھے کوئی بلائے ناگہانی کاٹتی ہے
میں دریا ہوں مگر کتنا ستایا جا رہا ہوں
کہ بستی روز آ کے میرا پانی کاٹتی ہے
زمیں پر ہوں مگر کٹ کٹ کے گرتا جا رہا ہوں
مسلسل اک نگاہ آسمانی کاٹتی ہے
میں کچھ دن سے اچانک پھر اکیلا پڑ گیا ہوں
نئے موسم میں اک وحشت پرانی کاٹتی ہے
کہ راجہ مر چکا ہے اور شہزادے جواں ہیں
یہ رانی کس طرح اپنی جوانی کاٹتی ہے
نظر والو تمہاری آنکھ سے شکوہ ہے مجھ کو
زباں والو تمہاری بے زبانی کاٹتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.