کچھ بھی نہیں ہے عالم ذرات سے آگے
کچھ بھی نہیں ہے عالم ذرات سے آگے
اک عالم ہو عالم اصوات سے آگے
ملتے ہیں سماوات سماوات سے آگے
ہر گام حجابات حجابات سے آگے
اس دہر میں ہم خود بھی ہیں منجملہ خرافات
کس طرح نظر جائے خرافات سے آگے
اے رات کے مارو تمہیں کس طرح بجھاؤں
اک صبح بھی اک دن بھی ہے اس رات سے آگے
انساں ہیں مگر بیچ کی منزل میں کھڑے ہیں
حیوان سے پیچھے ہیں جمادات سے آگے
جو کچھ ہے یہاں وہ ہے خرابات کے اندر
کچھ بھی نہیں اے رند خرابات سے آگے
کیا سوچتے ہو ذہن میں وہ آ نہیں سکتا
کیا سوچتے ہو ہے وہ خیالات سے آگے
ہونے کو وہ جیسا بھی ہو ہم ہیں تو وہ ہوگا
خاموشی ہی خاموشی ہے اس بات سے آگے
سمجھیں گے وہی ذہن جمیلؔ اپنے سخن کو
جاتی ہے نظر جن کی طبیعات سے آگے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.