کچھ اس انداز سے ہیں دشت میں آہو نکل آئے
کچھ اس انداز سے ہیں دشت میں آہو نکل آئے
کہ ان کو دیکھ کر پھولوں کے بھی آنسو نکل آئے
فلک کو کون سی وادی برہنہ سر نظر آئی
گرجتے بادلوں کے لشکری ہر سو نکل آئے
ابھی تو ایک ہی دل کا دریچہ وا کیا میں نے
یہاں بہر زیارت کس قدر جگنو نکل آئے
جو سجدے کی نہیں تو رقص کرنے کی اجازت ہو
کسی سینے سے جب باہر تری خوشبو نکل آئے
اسی امید پر کاٹا سفر تاریک راہوں کا
نہ جانے کون سے گنبد سے وہ مہ رو نکل آئے
چمن زار وفا میں موسموں کی اپنی فطرت ہے
بریدہ ایک بازو سے کئی بازو نکل آئے
کبھی تو احتیاط زہد سے حائل ہوئے پردے
کبھی مستی میں بھی تسبیح کے پہلو نکل آئے
- کتاب : Ghazal Calendar-2015 (Pg. 27.11.2015)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.