کچھ نقش ہویدا ہیں خیالوں کی ڈگر سے
کچھ نقش ہویدا ہیں خیالوں کی ڈگر سے
شاید کبھی گزرا ہوں میں اس راہگزر سے
گلیاں بھی ہیں سنسان دریچے بھی ہیں خاموش
قدموں کی یہ آواز در آئی ہے کدھر سے
طاقوں میں چراغوں کا دھواں جم سا گیا ہے
اب ہم بھی نکلتے نہیں اجڑے ہوئے گھر سے
کیوں کاغذی پھولوں سے سجاتا نہیں گھر کو
اس دور کو شکوہ ہے مرے ذوق ہنر سے
سائے کی طرح کوئی تعاقب میں رواں ہے
اب بچ کے کہاں جائیں گے اک شعبدہ گر سے
اخترؔ یہ گھنے ابر بڑے تنگ نظر ہیں
اٹھے ہیں جو دریا سے تو دریا پہ ہی برسے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.