کیا کہوں غنچۂ گل نیم دہاں ہے کچھ اور
لا کلامی ہے وہاں بات یہاں ہے کچھ اور
بجھ گئی آتش گل دیکھ تو اے دیدۂ تر
کیا سلگتا ہے جو پہلو میں دھواں ہے کچھ اور
پانی اس میں سے بھریں اس میں گریں یوسف دل
چشمۂ چاہ ذقن اور کنواں ہے کچھ اور
جیتے جی موت کا ڈر بعد فنا خوف عذاب
جز غم و رنج یہاں ہے نہ وہاں ہے کچھ اور
حسن صورت پہ نہ جا دیکھ وہیں معنی کو
ایک ہیں کعبہ و بت خانہ کہاں ہے کچھ اور
تم سمجھتے ہو مری بے ذہنی میں ہے کلام
لب گویا کی قسم ذکر یہاں ہے کچھ اور
بادہ کش وہ ہوں کروں شیشے کے شیشے خالی
پر لگاؤں یہی رٹ نشہ میں ہاں ہے کچھ اور
قسمت شادؔ میں جز غم جو یہاں کچھ بھی نہیں
اے ہوس لے چل ادھر کو کہ جہاں ہے کچھ اور
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.