کیوں کہوں میں کہ ستم کا میں سزاوار نہ تھا
کیوں کہوں میں کہ ستم کا میں سزاوار نہ تھا
دل دیا تھا تجھے کس طرح گنہ گار نہ تھا
عمر بھر مجھ سے تھی ہر ایک کو بے وجہ خلش
کیونکہ میں گلشن عالم میں کوئی خار نہ تھا
کیا نہ کچھ ہو گیا اک غیرت یوسف کے لیے
کب محبت میں میں رسوا سر بازار نہ تھا
کیا یہ کرتا مرے زخم جگر و دل کا علاج
چرخ بے رحم کوئی مرہم زنگار نہ تھا
فرد نکلا فن دزدی میں خیال دلبر
اس کا آنا تھا کہ پہلو میں دل زار نہ تھا
کیا بہلتا گل و سنبل سے چمن میں مرا دل
وہ تری زلف نہ تھا یہ ترا رخسار نہ تھا
اپنی قسمت ہی کا شاکی میں محبت میں رہا
شکوۂ چرخ نہ تھا کچھ گلۂ یار نہ تھا
حشر کے روز مرے حسن گنہ کا یا رب
تیری رحمت کے سوا کوئی خریدار نہ تھا
تیری آنکھوں کی محبت کا فقط تھا اسے روگ
ورنہ کچھ نرگس بیمار کو آزار نہ تھا
تم نے محفل میں جگہ دی اسے حسرت ہے مجھے
غیر اس آؤ بھگت کا تو سزاوار نہ تھا
نرگس اس آنکھ کی بیمار گل اس رخ پہ نثار
باغ عالم میں کسے عشق کا آزار نہ تھا
ہو گئی رسم ملاقات چلو بحث ہے کیا
تم خطا پر نہ تھے اور میں بھی وفادار نہ تھا
دو پیالوں میں ہے ساقی کے عجب کیف فہیمؔ
آنکھیں ملتے ہی وہ تھا کون جو سرشار نہ تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.