کیوں شہر اجاڑ سا پڑا تھا
کیوں شہر اجاڑ سا پڑا تھا
کیا سر پہ پہاڑ آ پڑا تھا
قدرت تو گواہ ہے کہ میداں
ہارے تھے کہ ہارنا پڑا تھا
تھی برف سی رات اور لشکر
بے خیمہ و بے ردا پڑا تھا
کیا بھیڑ تھی کل اور آج دیکھا
سنسان وہ راستہ پڑا تھا
کیوں خیموں کی آگ بجھ گئی تھی
یہ راکھ سے پوچھنا پڑا تھا
وہ شام سکوت بھی عجب تھی
قاتل کو پکارنا پڑا تھا
تھا مال دکاں میں حسب تخصیص
تہہ خانہ مگر اٹا پڑا تھا
اس باب رسد سے رزق تقدیر
لے آئے جو کچھ گرا پڑا تھا
اپنے ہی مجسمے کو توڑا
ہاتھ اپنا غلط بھی کیا پڑا تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.