لہو میں ڈوبتا منظر خلاف رہتا ہے
لہو میں ڈوبتا منظر خلاف رہتا ہے
امیر شہر کا خنجر خلاف رہتا ہے
یزید وقت کو دنیا قبول کر لے مگر
سناں کی نوک پہ اک سر خلاف رہتا ہے
سلگتی پیاس نے کر لی ہے مورچہ بندی
اسی خطا پہ سمندر خلاف رہتا ہے
مرے اصول کے بچے بھی احتجاجی ہیں
ذرا جھکوں تو مرا گھر خلاف رہتا ہے
میں چاہتا ہوں کہ دشمن کو سرخ رو کر دوں
مگر سفید کبوتر خلاف رہتا ہے
ہے اعتماد مجھے پھاوڑوں کی طاقت پر
بس اتنی بات سے پتھر خلاف رہتا ہے
عجب طرح کی طبیعت ملی ہے خود سر کو
کہ دو جہان سے اکبرؔ خلاف رہتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.