لہو نے کیا ترے خنجر کو دل کشی دی ہے
لہو نے کیا ترے خنجر کو دل کشی دی ہے
کہ ہم نے زخم بھی کھائے ہیں داد بھی دی ہے
لباس چھین لیا ہے برہنگی دی ہے
مگر مذاق تو دیکھو کہ آنکھ بھی دی ہے
ہماری بات پہ کس کو یقین آئے گا
خزاں میں ہم نے بشارت بہار کی دی ہے
دھرا ہی کیا تھا ترے شہر بے ضمیر کے پاس
مرے شعور نے خیرات آگہی دی ہے
حیات تجھ کو خدا اور سر بلند کرے
تری بقا کے لیے ہم نے زندگی دی ہے
کہاں تھی پہلے یہ بازار سنگ کی رونق
سر شکستہ نے کیسی ہماہمی دی ہے
چراغ ہوں مری کرنوں کا قرض ہے سب پر
بقدر ظرف نظر سب کو روشنی دی ہے
چلی نہ پھر کسی مظلوم کے گلے پہ چھری
ہماری موت نے کتنوں کو زندگی دی ہے
ترے نصاب میں داخل تھی آستاں بوسی
مرے ضمیر نے تعلیم سرکشی دی ہے
کٹے گی عمر سفر جادہ آفرینی میں
تری تلاش نے توفیق گمرہی دی ہے
ہزار دیدہ تصور ہزار رنگ نظر
ہوس نے حسن کو بسیار چہرگی دی ہے
- کتاب : Kalam-e-aizaz afzal (Pg. 179)
- Author : Aizaz Afzal
- مطبع : Usmania Book Depot
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.