لہو سے اٹھ کے گھٹاؤں کے دل برستے ہیں
لہو سے اٹھ کے گھٹاؤں کے دل برستے ہیں
بدن چھتوں کی طرح دھوپ میں جھلستے ہیں
ہم ایسے پیڑ ہیں جو چھاؤں باندھ کر رکھ دیں
شدید دھوپ میں خود سائے کو ترستے ہیں
ہر ایک جسم کے چاروں طرف سمندر ہے
یہاں عجیب جزیروں میں لوگ بستے ہیں
سبھی کو دھن ہے کہ شیشے کے بام و در ہوں مگر
یہ دیکھتے نہیں پتھر ابھی برستے ہیں
بہا کے لے گیا سیلاب راستے جن کے
وہ شہر اپنے خیالوں میں اب بھی بستے ہیں
مآل کیا ہے اجالوں کے ان دفینوں کا
جنہیں چھوئیں تو اندھیروں کے ناگ ڈستے ہیں
عجیب لوگ ہیں کاغذ کی کشتیاں گڑھ کے
سمندروں کی بلا خیزیوں پہ ہنستے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.