لطف ساماں عتاب یار بھی ہے
لطف ساماں عتاب یار بھی ہے
محرم عشق شرمسار بھی ہے
سست پیمان و بے نیاز سہی
حسن تصویر انتظار بھی ہے
کیا کرے وہ نگاہ لطف کہ عشق
شادماں بھی ہے سوگوار بھی ہے
گلشن عشق ہوں خزاں میری
وجہ رنگینیٔ بہار بھی ہے
عقدۂ عشق کو نہ تو سمجھا
یہی عقدہ کشود کار بھی ہے
اپنی تقدیر اپنے ہاتھ میں لے
شامل جبر اختیار بھی ہے
آپ اپنا چڑھاؤ اپنا اتار
زندگی نشہ ہے خمار بھی ہے
ان نگاہوں میں ہے شکایت سی
عشق شاید جفا شعار بھی ہے
دل سے ہے دور بھی نگاہ تری
دل کے اندر ہے دل کے پار بھی ہے
سر بسر غرق نور ہو لیکن
زندگی اکتساب نار بھی ہے
کون ترغیب ہوش دے کہ جنوں
بے خبر بھی ہے ہوشیار بھی ہے
خلوت حسن و عشق بھی ہے اداس
سرد کچھ بزم روزگار بھی ہے
راز اس آنکھ کا نہیں کھلتا
دل شکیبا بھی بے قرار بھی ہے
خود تجھے بھی ہوئی نہ جن کی خبر
ان جفاؤں کا کچھ شمار بھی ہے
اس میں لاکھوں نظام شمسی ہیں
یوں تو دل تیرہ روزگار بھی ہے
اس کی ضو اس کی گرمیاں مت پوچھ
زندگی نور بھی ہے نار بھی ہے
عشق ہجراں نصیب کا بھی ہے دھیان
ترے وعدے کا اعتبار بھی ہے
عشق ہی سے ہیں منزلیں آباد
کارواں کارواں پکار بھی ہے
کوئی سمجھا اسے نہ دیکھ سکا
نگۂ شوخ شرمسار بھی ہے
اس سے چھٹ کر یہ سوچتا ہوں فراقؔ
اس میں کچھ اپنا اختیار بھی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.