مآل دل کے لیے آج یوں خودی ترسے
مآل دل کے لیے آج یوں خودی ترسے
کہ زندگی کے لیے جیسے زندگی ترسے
خرد بدوش ہے تہذیب نو مگر پھر بھی
جنوں بداماں تمدن کو آگہی ترسے
جو اپنا خون جگر پی کے مست ہو جائیں
اب ایسے ظرف پرستوں کو تشنگی ترسے
ہے اب بھی سلسلۂ دوستی جہاں میں مگر
وفا شناس محبت کو دوستی ترسے
مقام ضبط غم عشق میں وہ پیدا کر
کہ تو خوشی کو نہ ترسے تجھے خوشی ترسے
رہ وفا میں مجھے کاش ایسی موت ملے
کہ بعد مرگ مجھے میری زندگی ترسے
جہاں میں اہل سخن کم نہیں مگر حامدؔ
تخیلات حقیقت کو شاعری ترسے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.