ماحول سے جیسے کہ گھٹن ہونے لگی ہے
ماحول سے جیسے کہ گھٹن ہونے لگی ہے
بے کیفیتی عضو بدن ہونے لگی ہے
کچھ فرق سا محسوس نہیں شام و سحر میں
اٹھنے کے تصور سے تھکن ہونے لگی ہے
مفقود ہوئی خنکیٔ احساس نظر سے
سبزوں کو بھی دیکھے سے جلن ہونے لگی ہے
کچھ اس سے گلہ بھی ہے کچھ اپنی بھی خطائیں
یوں اس کے تصور سے چبھن ہونے لگی ہے
حساس بھی امروز طبیعت سے زیادہ
اور تیز بھی کچھ بوئے سمن ہونے لگی ہے
پہلے بھی تری بات ہی مرکز تھی سخن کا
اب یاد تری صرف سخن ہونے لگی ہے
اے تاجؔ ترے ایک نشیمن کے حسد میں
آ دیکھ کہ تخریب چمن ہونے لگی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.