میں دیکھ بھی نہ سکا میرے گرد کیا گیا تھا
میں دیکھ بھی نہ سکا میرے گرد کیا گیا تھا
کہ جس مقام پہ میں تھا وہاں اجالا تھا
درست ہے کہ وہ جنگل کی آگ تھی لیکن
وہیں قریب ہی دریا بھی اک گزرتا تھا
تم آ گئے تو چمکنے لگی ہیں دیواریں
ابھی ابھی تو یہاں پر بڑا اندھیرا تھا
لبوں پہ خیر تبسم بکھر بکھر ہی گیا
یہ اور بات کہ ہنسنے کو دل ترستا تھا
سنا ہے لوگ بہت سے ملے تھے رستے میں
مری نظر سے تو بس ایک شخص گزرا تھا
الجھ پڑی تھی مقدر سے آرزو میری
دم فراق اسے روکنا بھی چاہا تھا
مہک رہا ہے چمن کی طرح وہ آئینہ
کہ جس میں تو نے کبھی اپنا روپ دیکھا تھا
گھٹا اٹھی ہے تو پھر یاد آ گیا انورؔ
عجیب شخص تھا اکثر اداس رہتا تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.