میں دیر سے دھوپ میں کھڑا ہوں
میں دیر سے دھوپ میں کھڑا ہوں
سایہ سایہ پکارتا ہوں
سونا ہوں کرید کر تو دیکھو
مٹی میں دبا ہوا پڑا ہوں
لے مجھ کو سنبھال گردش وقت
ٹوٹا ہوا تیرا آئینہ ہوں
یوں ربط تو ہے نشاط سے بھی
در اصل میں غم سے آشنا ہوں
صحبت میں گلوں کی میں بھی رہ کر
کانٹوں کی زباں سمجھ گیا ہوں
دشمن ہو کوئی کہ دوست میرا
ہر ایک کے حق میں میں دعا ہوں
کیوں آب حیات کو میں ترسوں
میں زہر حیات پی چکا ہوں
تقدیر جنوں پہ چپ رہا میں
تعبیر جنوں پہ رو رہا ہوں
ہر عہد کے لوگ مجھ سے ناخوش
ہر عہد میں خواب دیکھتا ہوں
- کتاب : تیری صدا کا انتظار (Pg. 69)
- Author : خلیل الرحمن اعظمی
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2018)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.