میں محل ریت کے صحرا میں بنانے بیٹھا
میں محل ریت کے صحرا میں بنانے بیٹھا
چند الفاظ کو ماضی کے بھلانے بیٹھا
حادثے سے ہی ہوا غم کا مداوا میرے
فلسفہ صبر کا لوگوں کو پڑھانے بیٹھا
تھک کے سائے میں ببولوں کے سکوں جب چاہا
اس کا ہر پتہ مجھے کانٹے لگانے بیٹھا
جس نے توڑا سبھی ناطوں سبھی رشتوں کو مرے
عمر بھر کا وہی اب قرض چکانے بیٹھا
اس کے تلخاب سے کب پیاس مری بجھ پائی
گھر سمندر کے کنارے ہی بسانے بیٹھا
جسم کے بخیے جو ادھڑے تو ادھڑتے ہی رہے
جامہ ریشم کا پہنے کو سلانے بیٹھا
لوگ تھے گرد الاؤ کے مگر میں نیرؔ
جسم کی آگ کو پانی سے بجھانے بیٹھا
- کتاب : Saye Babool Ke (Pg. 70)
- Author : Azhar Naiyyar
- مطبع : Educational Publishing House (2014)
- اشاعت : 2014
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.