میں پچھلی رات کیا جانے کہاں تھا
میں پچھلی رات کیا جانے کہاں تھا
دعاؤں کا بھی لہجہ بے زباں تھا
ہوا گم سم تھی سونا آشیاں تھا
پرندہ رات بھر جانے کہاں تھا
ہواؤں میں اڑا کرتے تھے ہم بھی
ہمارے سامنے بھی آسماں تھا
مری تقدیر تھی آوارہ گردی
مرا سارا قبیلہ بے مکاں تھا
مزے سے سو رہی تھی ساری بستی
جہاں میں تھا وہیں شاید دھواں تھا
میں اپنی لاش پر آنسو بہاتا
مجھے دکھ تھا مگر اتنا کہاں تھا
سفر کاٹا ہے کتنی مشکلوں سے
وہاں سایہ نہ تھا پانی جہاں تھا
کہاں سے آ گئی یہ خود نمائی
وہیں پھینک آؤ آئینہ جہاں تھا
میں قتل عام کا شاہد ہوں قیصرؔ
کہ بستی میں مرا اونچا مکاں تھا
- کتاب : Agar Darya Mila Hota (Pg. 137)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.