میں راکھ ہوتا گیا اور چراغ جلتا رہا
میں راکھ ہوتا گیا اور چراغ جلتا رہا
چراغ جلتا رہا آسماں پگھلتا رہا
میں بوند بوند جلا وصل کے کنارے پر
وہ لہر لہر بدن کروٹیں بدلتا رہا
لگی تھی آگ درختوں کے پار دریا میں
میں دیکھتا رہا اور آفتاب ڈھلتا رہا
بس ایک شام سر دشت کربلا اتری
پھر اس کے بعد گھروں سے علم نکلتا رہا
گلاب بہتا رہا خواہشوں کے پانی میں
ہوائیں چلتی رہیں اور دیا مچلتا رہا
عجب سفر تھا مرے اس کے درمیاں قیصرؔ
غبار اڑتا رہا اور ستارا چلتا رہا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.