میں وہ اک جنس گراں ہوں سر بازار کہ بس
میں وہ اک جنس گراں ہوں سر بازار کہ بس
ہاتھ یوں ملتے ہیں حسرت سے خریدار کہ بس
آج تک اہل وفا سے نہ کسی نے پوچھا
اور جاری رہے شغل رسن و دار کہ بس
چلچلاتی ہوئی یہ دھوپ یہ تپتے میداں
اور ادھر حوصلۂ دل کا وہ اصرار کہ بس
آ گیا یزداں کو ترس آخر کار
اتنا شرمندہ و نادم تھا گنہ گار کہ بس
شدت شوق میں حد سے نہ گزر جائے کہیں
کوئی کر دے دل ناداں کو خبردار کہ بس
جی یہی کہتا ہے اب چل کے وہیں جا ٹھہرو
ہم نے ویرانوں میں دیکھے ہیں وہ آثار کہ بس
دولت عیش ملا کرتی ہے نادانوں کو
اہل ادراک جیا کرتے ہیں یوں خوار کہ بس
چپ ہی اس دور میں رہیے تو مناسب ہے شمیمؔ
کان یوں رکھتے ہیں ورنہ در و دیوار کہ بس
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.