مجمع مرے حصار میں سیلانیوں کا ہے
جنگل ہوں میرا فرض نگہ بانیوں کا ہے
قطرے گریز کرنے لگے روشنائی کے
قصہ کسی کے خون کی ارزانیوں کا ہے
خوش رنگ پیرہن سے بدن تو چمک اٹھے
لیکن سوال روح کی تابانیوں کا ہے
رونے سے اور لطف وفاؤں کا بڑھ گیا
سب ذائقہ پھلوں میں نئے پانیوں کا ہے
سو بستیاں اجاڑیے دل کو نہ توڑیئے
یہ سنگ محترم کئی پیشانیوں کا ہے
محفوظ رہ سکیں گے سفینے کہاں تلک
موجوں میں بند و بست ہی طغیانیوں کا ہے
ہوتی ہیں دستیاب بڑی مشکلوں کے بعد
شاہدؔ حیات نام جن آسانیوں کا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.