مکان ملتے ہیں کیا لا مکاں نہیں ملتا
مکان ملتے ہیں کیا لا مکاں نہیں ملتا
نشان لاکھ ہیں لیکن نشاں نہیں ملتا
کہیں بھی جائیں کہاں آسماں نہیں ملتا
لحد ہی ایک جگہ ہے جہاں نہیں ملتا
ہوئی ہے روشن اسی سے ہماری پیشانی
جبین عرش کو جو آستاں نہیں ملتا
سنی ہے میں نے بھی رنگیں نوائی ناقوس
گلے سے میرے یہ وقت اذاں نہیں ملتا
یہ چاہتا ہوں کہ بے منہ کے آبلوں سے نبھے
کہیں بھی خار کوئی بے زباں نہیں ملتا
بہار آتے ہی پھولوں نے چھاؤنی چھائی
کہ ڈھونڈھتا ہوں مجھے آشیاں نہیں ملتا
یہ کہہ رہا ہے ترنم ہوا کی موجوں کا
خموش پھولوں کا حسن بیاں نہیں ملتا
یہ شب گزار حرم ہے ضرور اے ساقی
کسی سے رات کو پیر مغاں نہیں ملتا
چلے نہ کام بھرے خم اگر نہ ساتھ چلیں
حرم کی راہ میں کوسوں کنواں نہیں ملتا
شفق کھلی نہ سر قبر پائے رنگیں سے
زمیں سے جھک کے کبھی آسماں نہیں ملتا
خدا کے واسطے پہنچا دے کوئی منزل تک
بچھڑ گیا ہوں مجھے کارواں نہیں ملتا
زبان حال میں ان کی عجب لطافت ہے
کسی سے پھولوں کا حسن بیاں نہیں ملتا
چلے نہ ہاتھ گلے پر تو خود ہی چل جائے
انہیں گلا ہے کہ خنجر رواں نہیں ملتا
ریاضؔ چھانٹ لیا اس نے مجھ سے بوڑھے کو
کوئی بھی دختر رز کو جواں نہیں ملتا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.