مر گئے کچھ موت سے کچھ زندگی سے مر گئے
مر گئے کچھ موت سے کچھ زندگی سے مر گئے
اور کچھ جو بچ گئے وہ خودکشی سے مر گئے
موت ایسی چیز ہے جب در پے آئی ملنے تو
مرنے والے جیتے جیتے عاجزی سے مر گئے
کہہ رہے اپنی زبانی مسکرا کے چارہ گر
چارہ ساز زخم دل کی جو کمی سے مر گئے
کیا کریں کس سے شکایت ہم کے زاہد سب یہاں
بے بسی میں تھے جئے اور بیکسی سے مر گئے
میں نے تو سمجھایا تھا سب ہے یہاں اہل جفا
دل لگانے کو چلے تھے دل لگی سے مر گئے
ان کو دیتے تھے صدائیں چاروں جانب بارہا
چپ رہے وہ اور ہم بھی خامشی سے مر گئے
کچھ کو ساقی کی ہے رغبت اور کچھ کو اعتراض
توبہ توبہ کرنے والے مے کشی سے مر گئے
جی رہے کتنے دوانے تیری شوخی سے صنم
ہم تو لیکن بس تمہاری سادگی سے مر گئے
مر گئے کتنے ہی جاناں تیری اک مسکان پر
اور جانا کتنے تیری بے رخی سے مر گئے
قافیوں کی ہر عبارت ان کی نظروں نے لکھی
ان کی آنکھیں پڑھنے والے شاعری سے مر گئے
رات کی تاریکیوں سے کیا کریں صادقؔ گلہ
جگنوؤں کی بھیڑ میں ہم روشنی سے مر گئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.