مرنے کی پختہ خیالی میں جینے کی خامی رہنے دو
مرنے کی پختہ خیالی میں جینے کی خامی رہنے دو
یہ استدلالی ترک کرو بس استفہامی رہنے دو
یہ تیز روی یہ ترش روئی چلنے کی نہیں ہے دور تلک
شبنم نظری شیریں سخنی آسودہ گامی رہنے دو
سو دشت سمندر چھانو پر آتے رہو قریۂ دل تک بھی
بیرونی ہوا کے جھونکوں میں اک موج مقامی رہنے دو
اب طنز پہ کیوں مجبور کرو ہم غیر ملوث لوگوں کو
فن پیش کرو یہ فہرست اسمائے گرامی رہنے دو
رفتار پر اتنی داد نہ دو منزل نہ مری چھنیو مجھ سے
از راہ ہنر مرے حصے کی تھوڑی ناکامی رہنے دو
جتلاتے پھرو گر قد اپنا پیمائش کی مہلت تو نہ دو
اس قامت بالا کے صدقے یہ زود قیامی رہنے دو
اب ہم سے پریشاں حالاں کو کیا امن و سکوں راس آئے گا
یوں ہی بحرانی چلنے دو سارا ہنگامی رہنے دو
اے سازؔ وگرنہ لوگ تمہیں ٹھہرائیں گے سانپوں کا مسکن
اس شہر عکس گزیدہ میں آئینہ فامی رہنے دو
- کتاب : sargoshiyan zamanon ki (Pg. 51)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.