مصروفیت اسی کی ہے فرصت اسی کی ہے
مصروفیت اسی کی ہے فرصت اسی کی ہے
اس سرزمین دل پہ حکومت اسی کی ہے
ملتا ہے وہ بھی ترک تعلق کے باوجود
میں کیا کروں کہ مجھ کو بھی عادت اسی کی ہے
جو عمر اس کے ساتھ گزاری اسی کی تھی
باقی جو بچ گئی ہے مسافت اسی کی ہے
ہوتا ہے ہر کسی پہ اسی کا گماں مجھے
لگتا ہے ہر کسی میں شباہت اسی کی ہے
لکھوں تو اس کے عشق کو لکھنا ہے شاعری
سوچوں تو یہ سخن بھی عنایت اسی کی ہے
در آستاں کوئی ہو بظاہر سر سجود
لیکن پس سجود عبادت اسی کی ہے
وہ جس کے حق میں جھوٹی گواہی بھی میں نے دی
روحیؔ مرے خلاف شہادت اسی کی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.