موسموں کی باتوں تک گفتگو رہی اپنی
موسموں کی باتوں تک گفتگو رہی اپنی
میں نے کب کہی اپنی تم نے کب سنی اپنی
ختم ہی نہیں ہوتے سلسلے سوالوں کے
سلسلے سوالوں کے اور خامشی اپنی
ایک حد پہ قائم ہے گھٹتی ہے نہ بڑھتی ہے
تیرگی زمانے کی اور روشنی اپنی
کچھ حسین تصویریں رہ گئیں نگاہوں میں
ورنہ کیا گزر پاتی شام زندگی اپنی
فصل گل کے ہنگامے عارضی تو ہوتے ہیں
یوں نہیں گزر جاتے جیسے زندگی اپنی
کچھ اداس لوگوں نے میرا حال پوچھا تھا
ورنہ کون کرتا ہے عرض واقعی اپنی
اس خطا نے مجھ کو بھی شرمسار کر ڈالا
شہر کے رئیسوں سے دوستی نہ تھی اپنی
کچھ خوشی کے آنسو بھی اشک غم کے ساتھ آئے
اپنے جیسے لوگوں سے جب غزل سنی اپنی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.