موت کے چہرے پہ ہے کیوں مردنی چھائی ہوئی
موت کے چہرے پہ ہے کیوں مردنی چھائی ہوئی
دیکھنا کون آ گیا کیوں ٹل گئی آئی ہوئی
کوئی بدلی تو نہیں ابھری افق پر دیکھنا
پھر فضائے توبہ پر ہے بے دلی چھائی ہوئی
سیکھ دنیا ہی میں زاہد حور سے ملنے کے ڈھنگ
ورنہ روئے گا کہ جنت میں بھی رسوائی ہوئی
خانۂ دل میں کسی پردہ نشیں کی آرزو
آرزو کیا ہے دلہن بیٹھی ہے شرمائی ہوئی
عشق ہے اپنی وفاؤں سے بھی شرمایا ہوا
عقل ہے اپنی خطاؤں پر بھی اترائی ہوئی
کاش اس مصرع کا تم کو پاس ہوتا اے حفیظؔ
یہ بہار آئی ہوئی ایسی گھٹا چھائی ہوئی
- کتاب : Kulliyat-e-Hafeez Jalandhari (Pg. 124)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.