میسر جن کی نظروں کو ترے گیسو کے سائے ہیں
میسر جن کی نظروں کو ترے گیسو کے سائے ہیں
غزل کے خوش نما اسلوب ان کے ہاتھ آئے ہیں
یگانے اور بیگانے تعصب نے بنائے ہیں
وگرنہ سنبل و گل ایک ہی گلشن کے جائے ہیں
حقیقت ناگوار خاطر نازک نہ بن پائی
کچھ اس تکنیک سے ہم نے انہیں قصے سنائے ہیں
تو وہ انداز جیسے میرا گھر پڑتا ہو رستے میں
پئے اظہار ہمدردی وہ جب تشریف لائے ہیں
نقاب رخ الٹ کر اس نے چشم شوق کے پردے
سمجھ میں کچھ نہیں آتا اٹھائے ہیں گرائے ہیں
دمکتا ہے جبین ناز پر رنگ پشیمانی
اب ان سے کیا کہا جائے کہ یہ صدمے اٹھائے ہیں
لگاوٹ کی نگاہوں نے چراغ آرزو مندی
جلائے ہیں بجھائے ہیں بجھائے ہیں جلائے ہیں
جنہیں مینائے مے حاصل ہے جن کو درد پیمانہ
وہ جیسے آپ کے اپنے ہیں یہ جیسے پرائے ہیں
تغافل کی کوئی حد بھی تو ہونی چاہئے آخر
بالآخر بن بلائے ہم تری محفل میں آئے ہیں
نظر آتے ہیں تارے اس طرح ساون کی راتوں میں
کسی نے پھول کاغذ کے سمندر میں بہائے ہیں
یقیں ہے شادؔ مجھ کو کلیات نظم فطرت سے
گلوں نے رنگ و نکہت کے بہت مضموں چرائے ہیں
- کتاب : Kulliyat-e-Shad Aarfi (Pg. 92)
- Author : Muzaffar Hanfi
- مطبع : National AZcademy Delhi (1975)
- اشاعت : 1975
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.