مزہ تھا ہم کو جو لیلیٰ سے دو بہ دو کرتے
مزہ تھا ہم کو جو لیلیٰ سے دو بہ دو کرتے
کہ گل تمہاری بہاروں میں آرزو کرتے
مزے جو موت کے عاشق بیاں کبھو کرتے
مسیح و خضر بھی مرنے کی آرزو کرتے
غرض تھی کیا ترے تیروں کو آب پیکاں سے
مگر زیارت دل کیوں کہ بے وضو کرتے
عجب نہ تھا کہ زمانے کے انقلاب سے ہم
تیمم آب سے اور خاک سے وضو کرتے
اگر یہ جانتے چن چن کے ہم کو توڑیں گے
تو گل کبھی نہ تمنائے رنگ و بو کرتے
سمجھ یہ دار و رسن تار و سوزن اے منصور
کہ چاک پردہ حقیقت کا ہیں رفو کرتے
یقیں ہے صبح قیامت کو بھی صبوحی کش
اٹھیں گے خواب سے ساقی سبو سبو کرتے
نہ رہتی یوسف کنعاں کی گرمئ بازار
مقابلے میں جو ہم تجھ کو روبرو کرتے
چمن بھی دیکھتے گلزار آرزو کی بہار
تمہاری باد بہاری میں آرزو کرتے
سراغ عمر گزشتہ کا کیجئے گر ذوقؔ
تمام عمر گزر جائے جستجو کرتے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.