مزا ہے امتحاں کا آزما لے جس کا جی چاہے
مزا ہے امتحاں کا آزما لے جس کا جی چاہے
نمک زخم جگر پر اور ڈالے جس کا جی چاہے
جگر موجود ہے تو وہ بنا لے جس کا جی چاہے
گلا حاضر ہے خنجر آزما لے جس کا جی چاہے
اگر ہے حسن کا دعویٰ مہ و خورشید دونوں میں
کف پا سے تمہارے منہ ملا لے جس کا جی چاہے
یہ مشت استخواں اپنے کسی کے کام میں آئیں
ہما ہو یا سگ دل دار کھا لے جس کا جی چاہے
اگر ہے زندگی باقی تو ہم حسرت نکالیں گے
دل پر آرزو پر خاک ڈالے جس کا جی چاہے
فقیروں کو نہیں کچھ زینت دنیا سے مطلب ہے
میں خوش کمبل میں ہوں اوڑھے دوشالے جس کا جی چاہے
جو روشن دل میں ان کی روشنی چھپتی نہیں ہرگز
مہ تاباں پہ صاحب خاک ڈالے جس کا جی چاہے
شکایت مجھ کو دونوں سے ہے ناصح ہو کہ واعظ ہو
نہ سمجھا ہوں نہ سمجھوں سر پھرا لے جس کا جی چاہے
میں ہوں برگ خزاں افتادہ میں مردود دہقاں ہوں
گرا ہوں ان کی نظروں سے اٹھا لے جس کا جی چاہے
نہیں ہوتا کبھی آب رواں پر شک نجاست کا
مرے اشکوں کے دریا میں نہا لے جس کا جی چاہے
چمن میں گل کے مرجھانے سے آغاؔ ہو گیا ثابت
بسان غنچہ دم بھر مسکرا لے جس کا جی چاہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.