محنت کے رستے پر چلنے سے ہیں عاجز آئے لوگ
محنت کے رستے پر چلنے سے ہیں عاجز آئے لوگ
اوروں کی سیڑھی پر بیٹھے اپنی نظر گڑائے لوگ
آنے والے کل کو کیسے دیکھیں گے جب پھرتے ہیں
ماضی کی تصویروں کو ہر کھڑکی پر چپکائے لوگ
دور ہے کیسا شاخوں سے ہی پنچھی سہمے سہمے ہیں
اپنے ہی سائے سے اب تو رہتے ہیں گھبرائے لوگ
بن سوئے ہر رات بتا دیتے ہیں آنکھوں آنکھوں میں
اچھے دن کے سپنوں کا پلکوں پر بوجھ اٹھائے لوگ
اپنے سکھ کی خاطر پہلے کاٹیں بے بس پیڑوں کو
پھر جب چھاؤں نہیں ملتی ہے کرتے ہائے ہائے لوگ
ہو پر زور ارادہ تو منزل پا لیتے ہیں اک دن
جگنو کے سائے میں چل کر سورج کے ٹھکرائے لوگ
اپنے دکھ کی آنچ میں جلنا سمجھ صفرؔ کو آتا ہے
سمجھ نہ پائے پر دوجوں کے سکھ سے کیوں جھلائے لوگ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.