میرا عدم وجود بھی کیا زرنگار تھا
دلچسپ معلومات
شمارہ 98 جنوری تااپریل 1974
میرا عدم وجود بھی کیا زرنگار تھا
چاروں طرف خلا میں چمکتا غبار تھا
ساحل بنی نگاہ کی حد فاصلے مٹے
گرداب موج دود مکاں کا حصار تھا
پی کر لہو سیاہ ہوئی کشت آرزو
کیا دیکھتے کہ خاک کا دعویٰ بہار تھا
موجوں میں ڈوبتی ہوئی سرخی تھی شام کی
دل دشت پر سکوت تھا دریا قرار تھا
اک بوجھ اٹھائے شام کو لوٹا ہوں میں نڈھال
میں اپنے دام شوق میں کیا خود شکار تھا
دل کا سراغ کیا کہ جہاں تک نگاہ کی
نیرنگ نقش رفتۂ پاے فرار تھا
میں اک شجر سکوت تھا اور میری چھاؤں میں
گرتا ہوا صداؤں کا اک آبشار تھا
خورشید و ماہ میرے لئے اک فسانہ تھے
تاریک جنگلوں کا میں لیل و نہار تھا
شعلے دراز دست تھے اور میرے سامنے
خورشید شام دشت کا تاریک غار تھا
میں خاک دل بکھیر رہا تھا ہوا میں زیبؔ
اور اس سے بے خبر تھا کہ اس میں شرار تھا
- کتاب : Shabkhoon (Urdu Monthly) (Pg. 1119)
- Author : Shamsur Rahman Faruqi
- مطبع : Shabkhoon Po. Box No.13, 313 rani Mandi Allahabad (June December 2005áIssue No. 293 To 299âPart II)
- اشاعت : June December 2005áIssue No. 293 To 299âPart II
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.