میرے لہو میں اس نے نیا رنگ بھر دیا
میرے لہو میں اس نے نیا رنگ بھر دیا
سورج کی روشنی نے بڑا کام کر دیا
ہاتھوں پہ میرے اپنے لہو کا نشان تھا
لوگوں نے اس کے قتل کا الزام دھر دیا
گندم کا بیج پانی کی چھاگل اور اک چراغ
جب میں چلا تو اس نے یہ زاد سفر دیا
جاگا تو ماہتاب کی کنجی سرہانے تھی
میں خواب میں تھا جب مجھے روشن نگر دیا
اس کو تو اس کے شہر نے کچھ بھی دیا نہیں
اور اس نے پھر بھی شہر کو تحفے میں سر دیا
میرا بدن تو رد عمل میں خموش تھا
میری زباں نے ذائقہ خشک و تر دیا
وہ حرف آشنا ہے مجھے یہ گماں نہ تھا
اس نے تو سب کو نقش بہ دیوار کر دیا
یوں بھی تو اس نے حوصلہ افزائی کی مری
حرف سخن کے ساتھ ہی زخم ہنر دیا
اختر یہی نہیں کہ مجھے بال و پر ملے
اس نے تو عمر بھر مجھے احساس پر دیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.