میرے رستے میں بھی اشجار اگایا کیجے
میرے رستے میں بھی اشجار اگایا کیجے
میں بھی انساں ہوں مرے سر پہ بھی سایا کیجے
رات دن راہ میں آنکھیں نہ بچھایا کیجے
روشنی میں تو چراغوں کو بجھایا کیجے
آپ اتنا تو مرے واسطے کر سکتے ہیں
آپ اس شخص کی باتیں ہی سنایا کیجے
ہاتھ میں جو ہے بہار اس کو تو آنے دیجے
کاغذوں پر تو ہرے پیڑ بنایا کیجے
راستے دھوپ سے پگھلے ہی چلے جاتے ہیں
آپ بادل ہیں تو پھر شہر پہ سایا کیجے
قید تنہائی میں کیا آئے گی کوئی آواز
بیٹھ کر اپنی ہی زنجیر ہلایا کیجے
جا چکا شہر سے وہ اپنی اداسی لے کر
عمر بھر اب در و دیوار سجایا کیجے
لیجئے توڑ گیا دم وہ صداؤں کا ڈسا
چیخئے اب کہ یہاں شور مچایا کیجے
پھول کھلتے ہیں کہاں خشک چٹانوں میں عدیمؔ
راہ کے سنگ ہی آنکھوں سے لگایا کیجے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.