ملتے ہی خود کو آپ سے وابستہ کہہ دیا
ملتے ہی خود کو آپ سے وابستہ کہہ دیا
محسوس جو کیا وہی بر جستہ کہہ دیا
خورشید صبح نو کو شکایت ہے دوستو
کیوں شب سے ہم نے صبح کو پیوستہ کہہ دیا
میں چپ ہوا تو زخم مرے بولنے لگے
سب کچھ زبان حال سے لب بستہ کہہ دیا
چلتا رہا تو دشت نوردی کا طنز تھا
ٹھہرا ذرا تو آپ نے پابستہ کہہ دیا
دیکھی گئی نہ آپ کی اندوہ خاطری
کانٹے ملے تو ان کو بھی گلدستہ کہہ دیا
دیکھا تو ایک آگ کا دریا تھا موجزن
اس درد ناسزا نے جسے رستہ کہہ دیا
مجرم تھے وہ جو کر نہ سکے ارتکاب جرم
ملزم ہوں میں جو راز تھا سربستہ کہہ دیا
نا آشنائے سوز دروں کیا سمجھ سکیں
کیوں خود کو ہم نے آج جگر خستہ کہہ دیا
- کتاب : Range-e-Gazal (Pg. 334)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.