رمق ایک جان وبال ہے کوئی دم جو ہے تو عذاب ہے
رمق ایک جان وبال ہے کوئی دم جو ہے تو عذاب ہے
دل داغ گشتہ کباب ہے جگر گداختہ آب ہے
مری خلق محو کلام سب مجھے چھوڑتے ہیں خموش کب
مرا حرف رشک کتاب ہے مری بات لکھنے کا باب ہے
جو وہ لکھتا کچھ بھی تو نامہ بر کوئی رہتی منہ میں ترے نہاں
تری خامشی سے یہ نکلے ہے کہ جواب خط کا جواب ہے
رہے حال دل کا جو ایک سا تو رجوع کرتے کہیں بھلا
سو تو یہ کبھو ہمہ داغ ہے کبھو نیم سوز کباب ہے
کہیں گے کہو تمہیں لوگ کیا یہی آرسی یہی تم سدا
نہ کسو کی تم کو ہے ٹک حیا نہ ہمارے منہ سے حجاب ہے
چلو میکدے میں بسر کریں کہ رہی ہے کچھ برکت وہیں
لب نا توواں کا کباب ہے دم آب واں کا شراب ہے
نہیں کھلتیں آنکھیں تمہاری ٹک کہ مآل پر بھی نظر کرو
یہ جو وہم کی سی نمود ہے اسے خوب دیکھو تو خواب ہے
گئے وقت آتے ہیں ہاتھ کب ہوئے ہیں گنوا کے خراب سب
تجھے کرنا ہووے سو کر تو اب کہ یہ عمر برق شتاب ہے
کبھو لطف سے نہ سخن کیا کبھو بات کہہ نہ لگا لیا
یہی لحظہ لحظہ خطاب ہے وہی لمحہ لمحہ عتاب ہے
تو جہاں کے بحر عمیق میں سر پر ہوا نہ بلند کر
کہ یہ پنج روزہ جو بود ہے کسو موج پر کا حباب ہے
رکھو آرزو مئے خام کی کرو گفتگو خط جام کی
کہ سیاہ کاروں سے حشر میں نہ حساب ہے نہ کتاب ہے
مرا شور سن کے جو لوگوں نے کیا پوچھنا تو کہے ہے کیا
جسے میرؔ کہتے ہیں صاحبو یہ وہی تو خانہ خراب ہے
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 1, Ghazal No- 0571
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.