کیا کہیے کہ خوباں نے اب ہم میں ہے کیا رکھا
کیا کہیے کہ خوباں نے اب ہم میں ہے کیا رکھا
ان چشم سیاہوں نے بہتوں کو سلا رکھا
جلوہ ہے اسی کا سب گلشن میں زمانے کے
گل پھول کو ہے ان نے پردہ سا بنا رکھا
جوں برگ خزاں دیدہ سب زرد ہوئے ہم تو
گرمی نے ہمیں دل کی آخر کو جلا رکھا
کہیے جو تمیز اس کو کچھ اچھے برے کی ہو
دل جس کسو کا پایا چٹ ان نے اڑا رکھا
تھی مسلک الفت کی مشہور خطرناکی
میں دیدہ و دانستہ کس راہ میں پا رکھا
خورشید و قمر پیارے رہتے ہیں چھپے کوئی
رخساروں کو گو تو نے برقع سے چھپا رکھا
چشمک ہی نہیں تازی شیوے یہ اسی کے ہیں
جھمکی سی دکھا دے کر عالم کو لگا رکھا
لگنے کے لیے دل کے چھڑکا تھا نمک میں نے
سو چھاتی کے زخموں نے کل دیر مزہ رکھا
کشتے کو اس ابرو کے کیا میل ہو ہستی کی
میں طاق بلند اوپر جینے کو اٹھا رکھا
قطعی ہے دلیل اے میرؔ اس تیغ کی بے آبی
رحم ان نے مرے حق میں مطلق نہ روا رکھا
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 1, Ghazal No- 0140
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.