مرے وجود کا محور چمکتا رہتا ہے
مرے وجود کا محور چمکتا رہتا ہے
اسی سند سے مقدر چمکتا رہتا ہے
کسی مزار پہ چھائی ہے خاک مفلس کی
کسی مزار کا پتھر چمکتا رہتا ہے
یہ کیسی رسم ہلاکت بھی پا گئی ہے رواج
یہ کیسے خون کا منظر چمکتا رہتا ہے
مری نگاہ کو منزل کی روشنی ہے عزیز
بلا سے میل کا پتھر چمکتا رہتا ہے
جو اٹھ کے خاک سے پرواز کا اجالا بنا
اسی پرندے کا شہ پر چمکتا رہتا ہے
مٹا کے حوصلے باطل کے آؤ سوئے حق
قدم بڑھاؤ کہ رہبر چمکتا رہتا ہے
نجوم شمس قمر اور جلنے لگتے ہیں
سخن وروں میں جب اظہرؔ چمکتا رہتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.