مری فغاں میں اثر ہے بھی اور ہے بھی نہیں
مری فغاں میں اثر ہے بھی اور ہے بھی نہیں
ادھر کسی کی نظر ہے بھی اور ہے بھی نہیں
کوئی ملے گا یہ کیا ہم کہیں یقین کے ساتھ
پرائے دل کی خبر ہے بھی اور ہے بھی نہیں
ملا تھا حسن تو رہنا تھا دور دور اسے
وہ رشک شمس و قمر ہے بھی اور ہے بھی نہیں
امید و بیم میں الفت نے ہم کو ڈال دیا
علاج درد جگر ہے بھی اور ہے بھی نہیں
کرم کے ساتھ ستم تھا جفا کے ساتھ وفا
نظر میں ان کی نظر ہے بھی اور ہے بھی نہیں
مرے خیال میں آؤ مری نظر میں پھرو
یہ اک طرح کا سفر ہے بھی اور ہے بھی نہیں
جو پوچھتا ہوں تو اختر شناس کہتے ہیں
کہ شام غم کی سحر ہے بھی اور ہے بھی نہیں
جناب نوحؔ یہ کیا بار بار کہتے ہیں
وہ جوش دیدۂ تر ہے بھی اور ہے بھی نہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.