مدتوں سے جو معطر تھا وہ دفتر کاٹ کر
مدتوں سے جو معطر تھا وہ دفتر کاٹ کر
زرد موسم لکھ دیا سطر گل تر کاٹ کر
دیدۂ بینا کی خاطر تھا جو سامان نشاط
ریزہ ریزہ کر دیا کس نے وہ منظر کاٹ کر
کوئی کھڑکی ہی نظر آئی نہ دروازہ ملا
تھک گئے ہیں پاؤں دیواروں کے چکر کاٹ کر
دامن شب میں ہیں کتنے پھول کیا اس کو خبر
سو گیا کوہ مشقت کو جو دن بھر کاٹ کر
کھو گیا ہے آدمی بے چہرگی کے دشت میں
لے اڑا ہے وقت آئینوں کے جوہر کاٹ کر
یوں کیا آزاد زنجیر تعلق سے مجھے
چھوڑ دے جیسے کوئی طوطے کے شہ پر کاٹ کر
چاہتے ہیں سب کو بے محنت ملے شیریں ہمیں
کون اب لائے گا جوئے شیریں پتھر کاٹ کر
تب کہیں پایا کسی نے اس کی منزل کا پتہ
جب مسافت قطع کی خود کو سراسر کاٹ کر
تیرگی میں تھا جو ماہرؔ شمع روشن کی مثال
خاک پر پھینکا ہے کس ظالم نے وہ سر کاٹ کر
- کتاب : Hari Sonahri Khak (Ghazal) (Pg. 31)
- Author : Mahir Abdul Hayee
- مطبع : Bazme-e-Urdu,Mau (2008)
- اشاعت : 2008
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.