مجھ کو طلب تو نئی دنیا کی ہے
راہبری نقش کف پا کی ہے
بادیہ پیمائی وحشت سے تنگ
بے افقی وسعت صحرا کی ہے
ہے وہی موجود جو ہے دیدنی
رائے یہی دیدۂ بینا کی ہے
گھور رہی ہے جسے پیاسی نظر
شکل وہ مے کی نہیں مینا کی ہے
دل کشیٔ پیچ و خم پیرہن
دین خم و پیچ سراپا کی ہے
زلف پریشاں کے تلون میں بھی
خوبیٔ تمکیں رخ زیبا کی ہے
مجھ سے وہ ہے مجھ سے زیادہ قریب
خواہش قرب اس سے زیادہ کی ہے
یوں تو کنایوں کا بھی عادی ہے دار
دل کی ہوس اس کے علاوہ کی ہے
نقش میں نقطوں کے سوا کچھ نہیں
شکل گری شوق تماشا کی ہے
ثبت محبؔ اس لب جاں بخش پر
تشنہ لبی میری تمنا کی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.