مجھے اے ہم نفس اندیشۂ برق و خزاں کیوں ہو
مجھے اے ہم نفس اندیشۂ برق و خزاں کیوں ہو
مری پرواز محدود فضائے گلستاں کیوں ہو
جنوں کی وسعتوں پر تنگ ہے عرصہ دو عالم کا
جو سجدہ ہو تو پھر سجدہ بقید آستاں کیوں ہو
مرے کام آ گئی آخر مری کاشانہ بر دوشی
شرار و برق کی زد پر بھی میرا آشیاں کیوں ہو
غم دل بھی جو رسوائے مذاق عام ہو جائے
تو پھر ان داستانوں میں ہماری داستاں کیوں ہو
پیالوں کی کھنک سے بھی جہاں دل ٹوٹ جاتے ہیں
وہاں چھایا ہوا ہر بزم پر خواب گراں کیوں ہو
نہ میں جاندادۂ ساقی نہ میں وارفتۂ مطرب
اگر محفل سے اٹھ جاؤں تو محفل بد گماں کیوں ہو
میں جس عالم میں ہوں اپنی جگہ اے شورؔ تنہا ہوں
جدا ہو جس کی منزل وہ رہین کارواں کیوں ہو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.