مخالف جب سے آئینہ ہوا ہے
مخالف جب سے آئینہ ہوا ہے
مرا چہرہ ہی کچھ بدلا ہوا ہے
اسے بھولے ہوئے عرصہ ہوا ہے
یہ سچ ہے یا مجھے دھوکا ہوا ہے
کوئی کھیلا کسی نے توڑ ڈالا
یہ دل کے ساتھ بھی کیا کیا ہوا ہے
کنارے لگ گیا گستاخ تنکا
سمندر فکر میں ڈوبا ہوا ہے
سمٹنے کا بھی ہے اب ہوش کس کو
ابھی رخت سفر بکھرا ہوا ہے
تمہارے فیصلے بھی طے شدہ تھے
ہمارا جرم بھی سوچا ہوا ہے
مجھے راس آ گئی ہے اجنبیت
ہر اک رشتہ مرا پرکھا ہوا ہے
نظر پر دھول کی پرتیں جمی ہیں
تمہارا عکس بھی دھندلا ہوا ہے
چلو سالمؔ کہیں گمراہ ہو لیں
یہاں ہر راستہ بھٹکا ہوا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.